سامنے ہی تھے مگر بات نہ ہونے پائی

غزل| پیامؔ فتح پوری انتخاب| بزم سخن

سامنے ہی تھے مگر بات نہ ہونے پائی
بے خودی تھی وہ ملاقات نہ ہونے پائی
ہم نے تہذیبِ غمِ عشق کو زندہ رکھا
زندگی شورشِ جذبات نہ ہونے پائی
بھیگیں پلکیں نہ کبھی آنکھ سے آنسو نکلے
دل جو رویا بھی تو برسات نہ ہونے پائی
ظرف پر آنچ نہ آئی کبھی رندی سے مری
زندگی نذرِ خُرافات نہ ہونے پائی
بات کرتے تو سرِ راہِ گذر کیا کرتے
اس تکلف میں کوئی بات نہ ہونے پائی

مانگتا اُن کو خدا سے میں دعاؤوں میں پیامؔ
شامِ غم صبحِ مناجات نہ ہونے پائی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام