تو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ

غزل| پیر سید نصیر الدین نصیؔر انتخاب| بزم سخن

تو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ
ہم بنا لیں گے کہیں چھوٹا سا میخانہ الگ
مے کشی کے ساتھ لطفِ رقصِ پیمانہ الگ
اور اس پر التفاتِ پیرِ میخانہ الگ
خالِ رخ دل کی گرفتاری کا اک سامان ہے
بے خبر ہوتا نہیں ہے دام سے دانہ الگ
خود نمائی اس کی فطرت بے نیازی اس کی خو
رنگِ شاہانہ جدا طرزِ فقیرانہ الگ
گل کھلائے فصلِ گل آتے ہی دیوانوں نے یُوں
اب نظر آتا نہیں گلشن سے ویرانہ الگ
آنسوؤں سے لکھ رہے ہیں واقعاتِ زندگی
ہم مرتب کر رہے ہیں اپنا افسانہ الگ
تیرے صدقے اب نہیں ساقی مجھے کوئی گلہ
مجھ کو مل جاتی ہے مے پینے کو روزانہ الگ
میکدے میں ہم ہیں اپنے ہر نفس میں موجِ مے
اب نہ شیشہ ہے جدا ہم سے نہ پیمانہ الگ
زاہدوں کو بادہ نوشوں سے ہو کیوں کر التفات
پارسائی اور شے اندازِ رندانہ الگ
پی رہا ہوں جی رہا ہوں شاد ہوں مسرور ہوں
دل لگے مے سے الگ ساقی سے یارانہ الگ

میکدے میں اب بھی اتنی ساکھ ہے اپنی نصیرؔ
اک ہمارے نام کا رہتا ہے پیمانہ الگ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام