عشاق بہت ہیں ترے بیمار بہت ہیں

غزل| ایوب خاورؔ انتخاب| بزم سخن

عشاق بہت ہیں ترے بیمار بہت ہیں
تجھ حسنِ دل آرام کے حق دار بہت ہیں
اے سنگ صفت آ کے سرِ بام ذرا دیکھ
اک ہم ہی نہیں تیرے طلب گار بہت ہیں
بے چین کئے رکھتی ہے ہر آن یہ دل کو
کم بخت محبت کے بھی آزار بہت ہیں
مٹی کے کھلونے ہیں ترے ہاتھ میں ہم لوگ
اور گر کے بکھر جانے کے آثار بہت ہیں
لکھیں تو کوئی مصرعۂ تر لکھ نہیں پاتے
اور غالبؔ خستہ کے طرف دار بہت ہیں
اے ربِ ہنر چشمِ عنایات ادھر بھی
ہر چند کہ ہم تیرے گنہ گار بہت ہیں

خاورؔ اسے پا لینے میں کھو دینے کا ڈر ہے
اندیشہ و حسرت کے میاں خار بہت ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام