اس کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہوگا

غزل| شاعؔر لکھنوی انتخاب| بزم سخن

اس کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہوگا
لٹ گئی دولتِ احساس تو پھر کیا ہوگا
کون تا صبح جلائے گا تمنا کے چراغ
شام سے ٹوٹ گئی آس تو پھر کیا ہوگا
جن کی دوری میں وہ لذت ہے کہ بیتاب ہے دل
آ گئے وہ جو کہیں پاس تو پھر کیا ہوگا
تم سے زندہ ہے تمنائے مذاقِ احساس
تم ہوئے دشمنِ احساس تو پھر کیا ہوگا
دل غمِ دوست پہ مغرور بہت ہے لیکن
غم بھی آیا نہ اگر راس تو پھر کیا ہوگا
اپنی مخمور نگاہوں کو نہ دو اذنِ خرام
بڑھ گئی اور اگر پیاس تو پھر کیا ہوگا
ہم پریشاں تھے پریشاں ہیں پریشاں ہوں گے
تم کو آئی نہ خوشی راس تو پھر کیا ہوگا
عظمتِ عشق ہے خود داریٔ دل تک شاعرؔ
بجھ گیا شعلۂ احساس تو پھر کیا ہوگا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام