نہ جانے کب گلستاں میں نسیمِ نو بہار آئے

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

نہ جانے کب گلستاں میں نسیمِ نو بہار آئے
گل بن جائے کھل کے پھول پھولوں پر نکھار آئے
میرے خوابوں کی جنت بن کے وہ جانِ بہار آئے
جسے پا کر دلِ بے تاب کو میرے قرار آئے
گزرتا ہے اسی حسرت میں ہر لمحہ جدائی کا
تم آؤ پھر ملن کی رات آئے بار بار آئے
نہ پھیرو مجھ سے منہ دیکھو میری چاہت کو چاہت سے
مجھے پہچان کر شاید تمھارے دل میں پیار آئے
اگر سمجھیں یوں مجھ کو میرے اپنے بھی رقیب اپنا
بھلا اک اجنبی کو مجھ یہ کیسے اعتبار آئے
وہ مے مجھ کو پلا دے جس کو پینے سے میرے ساقی
حقیقی عشق میں کھو جاؤں میں ایسا خمار آئے
نہیں جن کو بھروسہ قوتِ بازو پہ کل تک تھا
کرم ایسا ہوا جو آج بن کر شہسوار آئے
سفر جاری رہے گا جب تلک منزل نہ مل جائے
نہ لوٹیں گے کبھی ہم گر رہِ پرخار زار آئے
خموشی پر میری نازاں بہت ہی دشمنانِ حق
زباں کو طاقتِ گفتار اے پروردگار آئے
میں جن کے عشق میں مدہوش ہو کر کھو گیا اقبالؔ
اسی محبوبِ رب کا تذکرہ لیل و نہار آئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام