وہی قصّے ہیں وہی بات پرانی اپنی

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

وہی قصّے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی
ہر ستم گر کو یہ ہمدرد سمجھ لیتی ہے
کتنی خوش فہم ہے کم بخت جوانی اپنی
روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول مجھے
چھوڑ جاتا ہے کوئی روز نشانی اپنی
تجھ سے بچھڑے ہیں تو پایا ہے بیاباں کا سکوت
ورنہ دریاؤں سے ملتی تھی روانی اپنی
قحطِ پندار کا موسم ہے سنہرے لوگو
اور کچھ تیز کرو اب کے گرانی اپنی
دشمنوں سے ہی غمِ دل کا مداوا مانگیں
دوستوں نے تو کوئی بات نہ مانی اپنی

آج پھر چاند افق پر نہیں ابھرا محسنؔ
آج پھر رات نہ گزرے گی سہانی اپنی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام