نمودِ حسن کو حیرت میں ہم کیا کیا سمجھتے ہیں

غزل| اصغرؔ گونڈوی انتخاب| بزم سخن

نمودِ حسن کو حیرت میں ہم کیا کیا سمجھتے ہیں
کبھی جلوہ سمجھتے ہیں کبھی پردا سمجھتے ہیں
ہم اُس کو دیں اُسی کو حاصلِ دنیا سمجھتے ہیں
مگرخودعشق کو اس سے بھی بے پروا سمجھتے ہیں
کبھی ہیں محوِ دید ایسے سمجھ باقی نہیں رہتی
کبھی دیدار سے محروم ہیں اتنا سمجھتے ہیں
یکایک توڑ ڈالا ساغرِ مے ہاتھ میں لے کر
مگر ہم بھی مزاجِ نرگسِ رعنا سمجھتے ہیں
کبھی گل کہہ کے پردہ ڈال دیتے ہیں ہم اُس رخ پر
کبھی مستی میں پھر گل کو رخِ زیبا سمجھتے ہیں
یہاں تو ایک پیغامِ جنوں پہنچا ہے مستوں کو
اب اُن سے پوچھئے دنیا کو جو دنیا سمجھتے ہیں
یہی تھوڑی سی مے ہے اور یہی چھوٹا سا پیمانہ
اِسی سے رند رازِ گنبدِ مینا سمجھتے ہیں
کبھی تو جستجو جلوے کو بھی پردہ بتاتی ہے
کبھی ہم شوق میں پردے کو بھی جلوا سمجھتے ہیں
خوشا وہ دن کہ حسنِ یار سے جب عقل خیرہ تھی
یہ سب محرومیاں تھیں آج ہم جتنا سمجھتے ہیں
کبھی جوشِ جنوں ایسا کہ چھا جاتے ہیں صحرا پر
کبھی ذرّے میں گم ہو کر اُسے صحرا سمجھتے ہیں
یہ ذوقِ دید کی شوخی وہ عکسِ رنگِ محبوبی
نہ جلوہ ہے نہ پردہ ہم اسے تنہا سمجھتے ہیں
نظر بھی آشنا ہو نشۂ بے نقش و صورت سے
ہم اہلِ راز سب رنگینئ مینا سمجھتے ہیں
وہ نگہت سے سوا پنہاں وہ گل سے بھی سوا عریاں
یہ ہم ہیں جو کبھی پردہ کبھی جلوا سمجھتے ہیں
یہ جلوے کی فراوانی یہ ارزانی یہ عریانی
پھر اس شدّت کی تابانی کو ہم پردا سمجھتے ہیں
دکھا جلوہ وہی غارت کنِ جانِ حزیں جلوہ
ترے جلوے کے آگے جان کو ہم کیا سمجھتے ہیں

زمانہ آ رہا ہے جب اُسے سمجھیں گے سب اصغرؔ
ابھی تو آپ خود کہتے ہیں خود تنہا سمجھتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام