خندۂ لب سے غمِ دل کو نکھارا جائے

غزل| ساحرؔ ہوشیارپوری انتخاب| بزم سخن

خندۂ لب سے غمِ دل کو نکھارا جائے
زیست کا قرض سلیقے سے اتارا جائے
کسی چہرے پہ تبسم نہ کسی آنکھ میں اشک
اجنبی شہر میں اب کون دوبارہ جائے
شام کو بادہ کشی شب کو تری یاد کا جشن
مسئلہ یہ ہے کہ دن کیسے گزارا جائے
تو کبھی درد کبھی شعلہ کبھی شبنم ہے
تجھ کو کس نام سے اے زیست پکارا جائے
ڈس لیا ہے کسی ناگن نے تو اے جذبۂ شوق
اب یہ ضد کیوں ہے کہ یہ زہر اتارا جائے
ہارنا بازئ الفت کا ہے اک کھیل مگر
لطف جب ہے کہ اسے جیت کے ہارا جائے
اس مقدر کے سنورنے کی دعا کیا مانگیں
جو تری چشمِ کرم سے نہ سنوارا جائے
غمِ دوراں غمِ جاناں غمِ ہستی ساحرؔ
بوجھ کوئی بھی ہو سر سے نہ اتارا جائے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام