مجھ کو یہ کیا ہو جاتا ہے گھر کا تصور آتے ہی

غزل| من موہن تلخؔ انتخاب| بزم سخن

مجھ کو یہ کیا ہو جاتا ہے گھر کا تصور آتے ہی
جیسے گھر سونا سونا لگتا ہے کسی کے جاتے ہی
اپنے جو قصے اوروں سے سن سن کر خوش ہوتے تھے
ہم تھے اپنی نظر میں جھوٹے خود ان کو دہراتے ہی
وہ جو بہت بھر پور تھے خود میں وہ کیوں ساتھ میں چیخ اٹھے
ہم تو خود سے خوفزدہ تھے ہم تو شور مچاتے ہی
دھیان کسے تھا تیرے جی میں آئی ہے درد بٹانے کی
ورنہ ساتھ ترے کہنے پر ہم کچھ دور تو جاتے ہی
آج جو تجھ سے بات ہوئی تو جیسے ہم وہ ہیں ہی نہیں
اتنا عرصہ بیت گیا کیا تجھ تک آتے آتے ہی
تو نے کہا بھی ہو جو کبھی کچھ تجھ کو کیا معلوم کہ میں
کتنا خالی ہو جاتا ہوں تجھ کو دھیان میں لاتے ہی
شاید کوئی ایک ہی آیا شاید کوئی نہ آیا تھا
ہم نہ جو تم کو دیکھ سکے تھے تم کو نظر تو آتے ہی
یہ جو کھڑے ہیں بت سے بنے ہم ایسا کس کو دیکھ لیا
ایسی کب اس سے ٹوٹی ہے ہم تو اس کے بلاتے ہی

باہر اندر تلخؔ اندھیرا کس کو ڈھونڈنے نکلے ہو
جوت جلا آتے چوکھٹ پر کچھ تو ڈھارس پاتے ہی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام