اربابِ تعطل کے لب پر بے روح دعائیں ہوتی ہیں

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

اربابِ تعطل کے لب پر بے روح دعائیں ہوتی ہیں
اور اہلِ عزیمت کے اندر جینے کی ادائیں ہوتی ہیں
عیاش کے قصرِ رنگیں میں جنت کی فضائیں ہوتی ہیں
سینے میں ظلم و عصیاں کی تاریک گھٹائیں ہوتی ہیں
جتنے بھی مصائب آتے ہیں جتنی بھی بلائیں ہوتی ہیں
تسلیم و رضا کے بندوں کے حق میں وہ دوائیں ہوتی ہیں
فطرت کے سربستہ جوہر کھلتے ہیں وقت کی چوٹوں سے
پھولوں سے عطر برستا ہے جب چاک قبائیں ہوتی ہیں
ارمانِ شہادت دل میں لئے نکلا ہوں یہ پوچھو تم مجھ سے
کیا روح فزا کیا جاں پرور قاتل کی ادائیں ہوتی ہیں
زخموں سے مرہم لیتے ہیں چوٹوں سے مداوا پاتے ہیں
دنیا میں اہلِ وحشت کی کیا خوب دوائیں ہوتی ہیں
احساس پہ خنجر چلتے ہیں احساسِ خطا جب ہوتا ہے
درگاہِ ضمیر و دل میں بھی کیا خوب سزائیں ہوتی ہیں
کیا نور کا عالم ہوتا ہے جب پچھلے پہر میں اٹھتا ہوں
افلاک کے دامن میں ہر سو رحمت کی گھٹائیں ہوتی ہیں

نغماتِ عنادل میں فطرتؔ اک کیف کا عالم ہوتا ہے
ہر غم کا مداوا کوئل کی مستانہ صدائیں ہوتی ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام