اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی

غزل| حبیب جالبؔ انتخاب| قتیبہ جمال

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انساں کی حفاظت نہیں ہوتی
مخلوقِ خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
ہم خاک نشینوں سے ہی کیوں کرتے ہیں نفرت
کیا پردہ نشینوں میں غلاظت نہیں ہوتی
یہ بات نئی نسل کو سمجھانی پڑے گی
کہ عریانی کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی
سر آنکھوں پر ہم اس کو بٹھا لیتے ہیں اکثر
جس کے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی
پہنچا ہے اگرچہ بڑا نقصان ہمیشہ
پھر بھی کسی بندے کی اطاعت نہیں ہوتی

ہر شخص اپنے سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام