گل پھینکتے ہو وار بھی اِک سات کرو ہو

غزل| ماجؔد صدیقی انتخاب| بزم سخن

نذرِ ڈاکٹر کلیم عاجؔز

گل پھینکتے ہو وار بھی اِک سات کرو ہو
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
مسکان کے کچھ بعد ہی یہ تیوری کیوں ہے
تم اچّھے بھلے روز کو کیوں رات کرو ہو
کب جوئے مے خاص کو تم کرنے لگے عام
کب آنکھ کو تم وقفِ خرابات کرو ہو
تم بات کرو اُن سے جو برّاق تمہیں دیں
ہم خاک نشینوں سے کہاں بات کرو ہو
تم یوں تو کھلاتے ہی نہیں غنچۂ لب کو
تم بات بھی کرتے ہو تو خیرات کرو ہو
کچھ کوڑیاں کرتے ہو جو تنخواہ میں ایزاد
حاتم کی سخاوت کو بھی تم مات کرو ہو

نسلوں کا یہ رونا ہے تمہارا نہیں ماجؔد
تکرار سے کیوں شکوۂ حالات کرو ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام