میں روز ایک نئی داستاں بناؤں گا

غزل| مدحتؔ الاختر انتخاب| بزم سخن

میں روز ایک نئی داستاں بناؤں گا
پھر اس کے بعد خموشی میں ڈوب جاؤں گا
سکوں ملے مجھے مٹی کی کوکھ میں شاید
میں مر گیا تو کبھی لوٹ کر نہ آؤں گا
وہ ڈور ہے تو مرے ہاتھ میں رہے گی سدا
پتنگ ہے تو ہوا میں اسے اڑاؤں گا
جدا جدا ہیں لکیریں سبھی کے ہاتھوں کی
ہجوم میں بھی اکیلا ہی خود کو پاؤں گا

اگر نصیب ہوئی مجھ کو ایک بھی نیکی
میں اپنے سارے گناہوں کو بھول جاؤں گا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام