میکدے میں جو کوئی جام بدل جاتا ہے

غزل| استاد قمرؔ جلالوی انتخاب| بزم سخن

میکدے میں جو کوئی جام بدل جاتا ہے
عالمِ گردشِ ایام بدل جاتا ہے
شامِ فرقت وہ قیامت ہے کہ اللہ بچائے
صبح کو آدمی کا نام بدل جاتا ہے
ہم اسے پہلی محبت کی نظر کہتے ہیں
جس کے آغاز کا انجام بدل جاتا ہے
نامہ بر ان کی زباں کے تو یہ الفاظ نہیں
راستے میں کہیں پیغام بدل جاتا ہے
خواب میں رخ پہ جب آ جاتے ہیں ان کے گیسو
انتظامِ سحر و شام بدل جاتا ہے
تم جواں ہو کے وہی غنچہ دہن ہو یہ کیا
جب کلی کھلتی ہے تو نام بدل جاتا ہے

اے قمرؔ ہجر کی شب کاٹ تو لیتا ہوں مگر
رنگ چہرے کا سرِ شام بدل جاتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام