حوصلہ باقی رہے آنکھوں میں دم باقی رہے

غزل| عزیزؔ بلگامی انتخاب| بزم سخن

حوصلہ باقی رہے آنکھوں میں دم باقی رہے
انگلیاں کٹ جائیں ہاتھوں میں قلم باقی رہے
قبل از منزل رسی سب ہم سفر اب آ ملیں
اس لئے سوچا ہوں منزل دو قدم باقی رہے
کہہ دیا تم نے رہِ اسلاف کو کیوں خیر باد!
کیسے ممکن ہے کہ پھر جاہ و حشم باقی رہے
جب بھی ہو خالی صراحی کی نظر ہو جام پر
اس طرح ساقی ترا لطف و کرم باقی رہے
ذہن و دل پر كيف کا غلبہ کوئی بھی کیوں نہ ہو
پر دماغ و دل میں استحضارِ غم باقی رہے
شعر پر داد و دہش میں جز رسی اچھی نہیں
شاعرِ بلگام کا کچھ تو بهرم باقی رہے

چھوڑ جاتا ہوں عزیزؔ اپنا کلامِ دل نشیں
نسلِ نو کے واسطے نقشِ قدم باقی رہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام