عزمِ سفر سے پہلے بھی اور ختمِ سفر سے آگے بھی

غزل| حنیف اخگرؔ ملیح آبادی انتخاب| بزم سخن

عزمِ سفر سے پہلے بھی اور ختمِ سفر سے آگے بھی
راہ گزر ہی راہ گزر ہے راہ گزر سے آگے بھی
تابِ نظر تو شرط ہے لیکن حدِّ نظر کیوں حائل ہے
جلوہ فگن تو جلوہ فگن ہے حدِّ نظر سے آگے بھی
صبحِ ازل سے شامِ ابد تک میرے ہی دم سے رونق ہے
اِس منظر سے اُس منظر تک اُس منظر سے آگے بھی
وہم و گماں سے علم و یقیں تک سیکڑوں نازک موڑ آئے
روئے زمیں سے شمس و قمر تک شمس و قمر سے آگے بھی
دل سے دعا نکلے تو یقیناً بابِ اثر تک پہنچے گی
آہ جو نکلے دل سے تو پہنچے بابِ اثر سے آگے بھی
دیدۂ تر کا اب تو اخگرؔ ایک ہی عالم رہتا ہے
نالۂ شب سے آہِ سحر تک آہِ سحر سےآگے بھی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام