کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا

غزل| اداؔ جعفری انتخاب| بزم سخن

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا
گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا
پلکوں کے بیچ سارے اجالے سمٹ گئے
سایہ نہ ساتھ دے یہ وہی مرحلہ ہے کیا
میں آندھیوں کے پاس تلاشِ صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا
ساگر ہوں اور موج کے ہر دائرے میں ہوں
ساحل پہ کوئی نقشِ قدم کھو گیا ہے کیا
سو سو طرح لکھا تو سہی حرفِ آرزو
اک حرفِ آرزو ہی مری انتہا ہے کیا
اک خواب دل پذیر گھنی چھاؤں کی طرح
یہ بھی نہیں تو پھر مری زنجیرِ پا ہے کیا

کیا پھر کسی نے قرض مروت ادا کیا
کیوں آنکھ بے سوال ہے دل پھر دکھا ہے کیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام