نصیبہ جاگ اٹھا اور مقدر بن گیا اپنا

غزل| غیاث متینؔ انتخاب| بزم سخن

نصیبہ جاگ اٹھا اور مقدر بن گیا اپنا
جہاں دیوار ہے اس کی وہیں گھر بن گیا اپنا
نہ جانے دھوپ نے اپنی زباں میں کیا کہا اس سے
شجر کے جسم سے سایہ نکل کر بن گیا اپنا
ہماری آنکھ سے نیندوں کا رشتہ توڑنے والے
کوئی تجھ سے سوا خوش رنگ پیکر بن گیا اپنا
ہمارا سر سلامت ہی رہا سنگِ حوادث میں
جو پتھر بھی ادھر آیا وہ پتھر بن گیا اپنا
سفر میں ساتھ اپنے دھوپ دریا اور سمندر تھے
ہماری خوش نصیبی تھی سمندر بن گیا اپنا
ہوا ، بارش ، سمندر کا کنارہ اور ہم دونوں
کچھ ایسے کھو گئے منظر میں منظر بن گیا اپنا
یہی بارش کا موسم تھا ہوائیں تیز تھیں اس دن
بہت بھیگا ہوا تھا وہ سمٹ کر بن گیا اپنا
متینؔ اک عمر گزری ہے سخن کو آب دینے میں
تبھی الماس لہجہ سب سے ہٹ کر بن گیا اپنا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام