میں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

میں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا
وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
میں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا
ہزار آئینہ خانوں میں بھی میں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مجھے خود سے آشنا کرتا
درِ قفس پہ قیامت کا حبس تھا ورنہ
صبا سے ذکر تیرا میں بھی سن لیا کرتا
میری زمیں تو اگر مجھ کو راس آ جاتی
میں رفعتوں میں تجھے آسمان سا کرتا
غمِ جہاں کی محبت لبھا رہی تھی مجھے
میں کس طرح تیری چاہت پہ آسرا کرتا

اگر زبان نہ کَٹتی تو شہر میں محسنؔ
میں پتّھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام