تری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے

غزل| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

تری گفتار میں تو پیار کے تیور کم تھے
کبھی جھانکا تری آنکھوں میں تو ہم ہی ہم تھے
لمس کے دم سے بصارت بھی بصیرت بھی ملی
چھو کے دیکھا تو جو پتھر تھے نرے ریشم تھے
تیری یادیں کبھی ہنستی تھیں کبھی روتی تھیں
میرے گھر کے یہی ہیرے تھے یہی نیلم تھے
برف گرماتی رہی دھوپ اماں دیتی رہی
دل کی نگری میں جو موسم تھے ترے موسم تھے
مری پونجی مرے اپنے ہی لہو کی تھی کشید
زندگی بھر کی کمائی مرے اپنے غم تھے
آنسوؤں نے عجب انداز میں سیراب کیا
کہیں بھیگے ہوئے آنچل کہیں باطن نم تھے
جن کے دامن کی ہوا میرے چراغوں پہ چلی
وہ کوئی اور کہاں تھے وہ مرے ہم دم تھے
میں نے پایا تھا بس اتنا ہی صداقت کا سراغ
دور تک پھیلتے خاکے تھے مگر مبہم تھے
میں نے گرنے نہ دیا مر کے بھی معیارِ وقار
ڈوبتے وقت مرے ہاتھ مرے پرچم تھے
میں سرِ عرش بھی پہونچا تو سرِ فرش رہا
کائناتوں کے سب امکاں مرے اندر ضم تھے

عمر بھر خاک میں جو اشک ہوئے جذب ندیمؔ
برگِ گل پر کبھی ٹپکے تو وہی شبنم تھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام