طور بنتا تو ہے مرکزِ نور بهی ہاں مگر دیدۂ معتبر کے لئے

غزل| کشفیؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

طور بنتا تو ہے مرکزِ نور بهی ہاں مگر دیدۂ معتبر کے لئے
یہ حقیقت بهی اب آئینہ ہو گئی تیرا جلوہ نہیں ہر نظر کے لئے
ظلمتِ شب بدستور ہے آج بهی نام کو بھی نہیں ہے کہیں روشنی
بن کے تاریکیٔ غم وہ ظاہر ہوئی ہم نے مانگی دعا جس سحر کے لئے
سچ تو یہ ہے اجل پر نہیں اس کا بس ورنہ انسان تو ہے بڑا بوالہوس
جانے کیا کیا تمنائیں رکهتا ہے یہ وہ بهی اک لمحۂ مختصر کے لئے
یہ محبت کا انعام اچھا دیا اس نوازش کا اے مہرباں شکریہ
کی نگاہِ کرم کیا مرے حال پر زحمتیں بخش دیں عمر بھر کے لئے
جادۂ جستجو میں قدم تو بڑها خود ہی منزل کا مل جائے گا راستہ
تیرے ذوقِ طلب کی یہ توہین ہے تو رہے منتظر راہ بر کے لئے
کشفیؔ اس دہر میں ہم نے دیکها یہی جرم سب سے بڑا ہے یہاں مفلسی
وہ ستم بهی کریں تو ہے عینِ کرم سب روا ہے یہاں اہلِ زر کے لئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام