وہ مثلِ موجِ بہار اپنے شباب کی سمت آ رہے ہیں

غزل| کشفیؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

وہ مثلِ موجِ بہار اپنے شباب کی سمت آ رہے ہیں
دلوں کے غنچے کھلا رہے ہیں نظر کا دامن سجا رہے ہیں
ہر ایک ذرے میں ہر فضا میں وہ حسن بن کر سما رہے ہیں
ہماری تابِ نگاہ کو وہ ہر آئینہ آزما رہے ہیں
ہمارے آنسو سنا رہے ہیں شکستہ دل کا فسانہ ان کو
مگر قیامت کی بات ہے یہ وہ سن کے بھی مسکرا رہے ہیں
دل و جگر خون ہو چکے ہیں ہمارے لب پر مگر ہنسی ہے
ہم اپنے افسانۂ وفا کو کچھ اور رنگیں بنا رہے ہیں
جو محوِ ظلم و ستم تھا کل تک وہ آج شاید بدل گیا ہو
یہ آرزو لے کے ہم دوبارہ کسی کے کوچے میں جا رہے ہیں
فلک کا انداز کہہ رہا ہے ہمارے ارماں کا خون ہوگا
ابھی تو آغازِ شب ہے آخر ستارے کیوں جھلملا رہے ہیں

ہماری قسمت کا پھیر دیکھو تلاشِ منزل میں عمر گزری
مگر جہاں سے چلے تھے کشفیؔ وہیں پہ ہم خود کو پا رہے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام