تم نے تو کہہ دیا کہ محبت نہیں ملی

غزل| نوشیؔ گیلانی انتخاب| بزم سخن

تم نے تو کہہ دیا کہ محبت نہیں ملی
مجھ کو تو یہ بھی کہنے کہ مہلت نہیں ملی
نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے
لیکن دیا جلانے سے فرصت نہیں ملی
تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا
اور مجھ کو اپنے گھر سے اجازت نہیں ملی
پھر اختلافِ رائے کی صورت نکل پڑی
اپنی یہاں کسی سے بھی عادت نہیں ملی
بے زار یوں ہوئے کہ ترے عہد میں ہمیں
سب کچھ مِلا سکون کی دولت نہیں ملی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام