میں ڈرا نہیں میں دبا نہیں میں جھکا نہیں میں بکا نہیں

غزل| خالدؔ علیگ انتخاب| بزم سخن

میں ڈرا نہیں میں دبا نہیں میں جھکا نہیں میں بکا نہیں
مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں
مرے جسم و جاں پہ اسی کے سارے عذاب سارے ثواب ہیں
وہی ایک حرفِ خود آگہی کہ ابھی جو میں نے کہا نہیں
نہ وہ حرف و لفظ کی داوری نہ وہ ذکر و فکرِ قلندری
جو مرے لہو سے لکھی تھی یہ وہ قراردادِ وفا نہیں
ابھی حسن و عشق میں فاصلے عدم اعتماد کے ہیں وہی
انہیں اعتبارِ وفا نہیں مجھے اعتبارِ جفا نہیں
وہ جو ایک بات تھی گفتنی وہی ایک بات شنیدنی
جسے میں نے تم سے کہا نہیں جسے تم نے مجھ سے سنا نہیں
میں صلیبِ وقت پہ کب سے ہوں مجھے اب تو اس سے اتار لو
کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں

مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام