سودا ہے محبت کا تو سر ساتھ میں رکھنا

غزل| خالدؔ علیگ انتخاب| بزم سخن

سودا ہے محبت کا تو سر ساتھ میں رکھنا
اس دشت میں یہ زادِ سفر ساتھ میں رکھنا
ہونٹوں پہ ہنسی دیدۂ تر ساتھ میں رکھنا
ہر چند کہ مشکل ہے مگر ساتھ میں رکھنا
اے اہلِ ہنر! اتنا ہنر ساتھ میں رکھنا
دیوار اٹھاتے ہو تو در ساتھ میں رکھنا
ایک بجھتا ہوا دیپ سہی ہم ہمیں پھر بھی
جب تک کہ نہ ہو جائے سحر ساتھ میں رکھنا
اس شہر میں جب كال پڑے در بدری کا
ہم خانہ خرابوں کی خبر ساتھ میں رکھنا
تنہا اسے چھوڑو گے تو لٹ جائے گا یہ بھی
اب گھر سے جو نکلو بھی تو گھر ساتھ میں رکھنا

دو گام بھی جو چل نہ سکا راهِ وفا میں
خالدؔ اسے کیا بار دِگر ساتھ میں رکھنا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام