دل والے ہیں ہم رسمِ وفا ہم سے ملی ہے

غزل| راہیؔ شہابی انتخاب| ابو الحسن علی

دل والے ہیں ہم رسمِ وفا ہم سے ملی ہے
دنیا میں محبت کو بقا ہم سے ملی ہے
وہ خندہ بہ لب ذکرِ گلستاں پہ یہ بولے
غنچوں کو تبسم کی ادا ہم سے ملی ہے
صدیوں سے ترستے ہوئے کانوں میں جو پہنچی
تاریخ سے پوچھو وہ صدا ہم سے ملی ہے
ہم وہ ہیں کہ خود پھونک دیئے اپنے نشیمن
گلشن کے اندھیروں کو ضیا ہم سے ملی ہے
کیا ایک ہی محور پہ ہے ٹھہری ہوئی دنیا
وہ جب بھی ملی ہے تو خفا ہم سے ملی ہے
وہ بت جو خدا آج بنے بیٹھے ہیں ان کو
یہ شانِ خدائی بہ خدا ہم سے ملی ہے
ہم ٹھہرے ہیں طوفانِ حوادث کے مقابل
بڑھ بڑھ کے گلے موجِ بلا ہم سے ملی ہے
سیکھا ہے جلانے کا چلن شمع نے تم سے
پروانوں کو جلنے کی ادا ہم سے ملی ہے

ہم اہلِ محبت ہیں لہو دیتے ہیں راہیؔ
بے نور چراغوں کو ضیا ہم سے ملی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام