کبھی ملتا تو اپنے آپ کو تسخیر کرتے ہم

غزل| سلیمؔ کوثر انتخاب| بزم سخن

کبھی ملتا تو اپنے آپ کو تسخیر کرتے ہم
ہمیں تو آئینہ کرتا تجھے تصویر کرتے ہم
خس و خاشاک تھے تو رقصِ ہجراں سے ذرا پہلے
دلوں کے درمیاں بھی فاصلہ زنجیر کرتے ہم
نہیں ہے چشم کو اب فرصتِ نظارگی ورنہ
کبھی رستہ بچھاتے اور تجھے رہ گیر کرتے ہم
ادا ہوتا ہے خوشبو کی طرح تو غنچۂ لب سے
اگر تو خواب بھی ہوتا تیری تعبیر کرتے ہم
ہم اہلِ عشق پر ایسا بھی دور آیا محبت میں
کوئی بھی ابتدا کرتا مگر تاخیر کرتے ہم
سلیؔم اب تک تو بے ترتیب آوازوں کے جنگل سے
گزرتے آ رہے ہیں کچھ نہ کچھ تحریر کرتے ہم



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام