لاکھ مسمار کئے جائیں زمانے والے

غزل| سلیمؔ کوثر انتخاب| بزم سخن

لاکھ مسمار کئے جائیں زمانے والے
آ ہی جاتے ہیں نیا شہر بسانے والے
اس کی زَد پر وہ کبھی خود بھی تو آ سکتے ہیں
یہ کہاں جانتے ہیں آگ لگانے والے
کون تعبیر کی سوچے کہ سبھی قتل ہوئے
موسمِ خواب کی تفصیل بتانے والے
اب تو ساون میں بھی بارود برستا ہے یہاں
اب وہ موسم نہیں بارش میں نہانے والے
اتنا آسان نہیں شہرِ محبت کا پتا
خود بھٹکتے ہیں یہاں راہ بتانے والے
سر سے جاتا ہی نہیں وعدۂ فردا کا جنوں
مر گئے عدل کی زنجیر ہلانے والے
اب جو ملتی ہے تو تنہائی یہی پوچھتی ہے
تم ہو بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملانے والے
ہم نہ کہتے تھے تجھے وقت بہت ظالم ہے
کیا ہوئے اب وہ ترے ناز اٹھانے والے
سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں
دھوپ کی نذر ہوئے پیڑ لگانے والے
گھر میں دیواریں ہیں اور صحن میں آنکھیں ہیں‌ سلیمؔ
اتنے آزاد نہیں وعدہ نبھانے والے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام