پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو

غزل| اطہرؔ نفیس انتخاب| بزم سخن

پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو
اس دل کی خبر لے جو تجھے بھول چلا ہو
اب دل میں سرِ شام چراغاں نہیں ہو تا
شعلہ مرے دل کا کہیں بجھنے نہ لگا ہو
کب عشق کیا کس سے کیا جھوٹ ہے یارو
بس بھول بھی جاؤ جو کبھی ہم سے سنا ہو
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لئے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
شاید کہ ترے قرب سے آ جائے میسر
وہ درد کہ جو دردِ جدائی سے سوا ہو
اب میری غزل کا بھی تقاضا ہے یہ تجھ سے
انداز و ادا کا کوئی اسلوب نیا ہو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام