تسخیرِ کائنات سے آگے کی سوچنا

غزل| افتخار راغبؔ انتخاب| بزم سخن

تسخیرِ کائنات سے آگے کی سوچنا
ہرگز نہ ایک ذات سے آگے کی سوچنا
جس میں ہے تو وہ دل ہی تو ہے محورِ حیات
کیا دل کی واردات سے آگے کی سوچنا
ہو جائے گی حیات کی گردش سرور بخش
بس گردشِ حیات سے آگے کی سوچنا
میں بھی اتار پھینکوں گا اپنی انا کا خول
تم بھی حصارِ ذات سے آگے کی سوچنا
اے دل گر اُس کے حسن پہ کرنی ہے گفتگو
حدِّ جمالیات سے آگے کی سوچنا
کوشش تو کر رہا ہوں پہ بس میں مرے نہیں
دل کے معاملات سے آگے کی سوچنا
اُس کی نگاہِ لطف ہے کافی مرے لئے
کیا اس کے التفات سے آگے کی سوچنا
در اصل اُس کی ذات میں ہے ایسی ایک بات
مشکل ہے ایک بات سے آگے کی سوچنا
مثبت مباحثے کی ہے نیّت تو یاد رکھ
لازم ہے ذاتیات سے آگے کی سوچنا
آئے گی روشنی کی حکومت بھی ایک دن
راغبؔ سیاہ رات سے آگے کی سوچنا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام